Tuesday, March 9, 2010

Iqbal and theory of power


اقبال کا نظریہ قوّت

اقبال کی تمام فکر قرآن و سنت سے ماخوذ ہے ۔ اقبال کے نظر یہ قوّت کی جڑ یں بھی قرآنی تعلیمات میں پیوست ہیں ۔ اللہ رب العزّت کے ننانوے نام ہیں ، جن میں سے ایک نام ہے ’’ اَ لْقَوِ یُّ ‘‘ ، یعنی ’’ بڑ ی قوّت والا ‘‘۔اسی لئے اقبال کا خیال ہے ۔۔۔: ۔
’’ قوّت صفات الٰہیہ میں سے ہے اور بندے کا فرض ہے کہ وہ خود کو اس صفت سے متصف کرے ۔‘‘
(’’ شذراتِ فکرِ اقبال‘‘ ، ص
۱۳۳ )
قرآنِ پاک میں باری تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے :۔
’’
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۔‘‘
( الا نفال :
۸:۶۰)
’’اور تیاری کرو واسطے ان کے جو کچھ تم کر سکو قوّت سے اور گھوڑ وں کے باندھنے سے 
تم ڈراؤ گے اس کے ساتھ اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو اور ان سے پرے 
اوروں کو کہ تم ان کو نہیں جانتے اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے ‘‘
( مترجم: شاہ رفیع الدین محدث دہلوی )
’’قوّت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے ، فرہنگِ آصفیہ میں قوّت کے معانی درج ذیل ہیں ۔
قوت(ع) اسم مونث:۔کھانا۔طعام۔خوراک۔خورش۔بھوجن۔روزی، روزینہ، رزق۔اَن۔اناج۔دانہ پانی۔
قوّت(ع) اسم مذکر :۔(
۱)بل۔طاقت۔زور۔شکتی۔توانائی۔پرا کرم۔سکت، قدرت۔مجال۔تاب۔
(
۲) سہارا۔ مدد۔کمک۔اعانت۔پشتی۔تقویت۔
(
۳) سلطنت۔دولت۔ریاست۔
(
۴) علم طبعی، متحرّک کو ساکن اور ساکن کو متحرّ ک کرنے والا زوریا وہ طاقت جو کسی جسم کی
حالت کو بدل دے اس میں خواہ حالتِ سکون سے خواہ حالتِ متحرک سے ۔

۲ (۵)حس۔اندری گیان۔جیسے ’’قوّتِشامہ ۔ ذائقہ ۔ سامعہ وغیرہ ‘‘ 
(’’ فرہنگ آصفیہ‘‘ ، جلد سوم، ص
۴۰۱، سید احمد دہلوی ، مطبع معارف پرنٹنگ پریس، لا ہور)
مندرجہ بالا تمام معانی روز مرہ زندگی میں مستعمل ہیں ، ایک معنیٰ فزکس کی رو سے بھی دیا گیا ہے ، بہر حال اقبال نے فلسفہ اور قوّت کے درمیان امتیاز قائم کرتے ہوئے قوّت کی تعریف یوں کی ہے :۔
’’ فلسفہ ، حق کی منطق ہے اور طاقت حق کا عمل ہے ۔‘‘ 
(’’ شذراتِ فکرِ اقبال‘‘ ، ص
۱۳۳ )
یعنی حق کو اپنے عملی اظہار کے لئے جس خوبی کی ضرورت ہوتی ہے اسے قوّت کہتے ہیں ۔نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ قوّت ’’حق‘‘ کا عمل ہے ، ’’باطل‘‘ کا عمل نہیں ہے ۔ قوّت اگر باطل کی غلام ہو توپھر اقبال کے مطابق پیغمبری بھی قوم کے حق میں لعنت ہوجاتی ہے ۔ اپنی نظم ’’ نفسیاتِ غلامی‘‘ میں فرماتے ہیں :۔
ہو اگر قوّت فرعون کی درپردہ مرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم ا للہٰی
( ضرب کلیم ، نظم ’’ نفسیات غلامی‘‘ ، صفحہ
۱۳۳ )
قوّت اسی وقت نتیجہ خیز ہو تی ہے جب وہ آزاد ہوتی ہے ۔غلام اپنی بقا کے لئے زیادہ سے زیادہ عے ّارانہ ہتھکنڈے استعمال کر سکتا ہے ، جو بہر حال مردِ مومن کے شایانِ شان نہیں ہو تے ہیں اور ہمیشہ ذلیل اور رسوا کرتے ہیں ۔
وہی ہے بندۂ حر جس کی ضرب ہے کاری
نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری
( ضرب کلیم ، نظم ’’ مردان خدا ‘‘ ، صفحہ
۳۹ )
اقبال کے نزدیک چونکہ حق سے مراد اللہ یا نظامِ اسلام ہے ، اس لئے وہ حقیقت میں اسلامی قوّت کے علمبردار ہیں ۔ اپنی نظم ’’ مذہب ‘‘ میں فرماتے ہیں :۔
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
( بانگِ درا ، نظم ’’ مذہب ‘‘ ، صفحہ
۱۹۰ ) 

۳۔قوّت چونکہ حق کا ’’عمل‘‘ ہے ، اس لئے عمل فطری طور پر انسان کی مکمل زندگی پر محیط ہو تا ہے ۔ انسان کی زندگی میں عمل کی کارفرمائی بالکل بنیادی نوعے ّت کی ہو تی ہے ۔انسان فطرتاً نہ تو فرشتہ ہے اور نہ ہی جن۔ یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے عمل کوحق کا عمل بنا کر اپنی زندگی کو جنّت بناتا ہے یا اپنے عمل کو باطل کاعمل بنا کر اپنی زندگی کو جہنّم بناتا ہے ۔ عمل اور زندگی کے تعلق کو ا قبال نے ایک اور جگہ اپنی نظم ’’ طلوعِ اسلام ‘‘ میں بڑ ے خوبصورت طریقے سے واضح کیا ہے ۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے 
( بانگِ درا ، نظم ’’ طلوع اسلام ‘‘ ، صفحہ
۲۱۲ )
اقبال اپنی نظم ’’خضرِ راہ ‘‘ میں ’’ زندگی ‘‘ کو اس تناظر میں دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
زند گانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
( بانگِ درا ، نظم ’’ خضرِ راہ ‘‘ ، صفحہ
۱۹۹ )
اقبال کے نزدیک عمل، مسلسل کوشش اور تیاری کا نام ہے جس کے بغیر کسی بھی پھل کی لذّت سے آشنائی عبث ہے اور سارا مزہ بھی اس کوشش میں ہی ہے ۔ بالفرض اگر کبھی نتیجہ نہیں بھی نکلتا تو پھر بھی عمل بے کار نہیں ہوتا ہے ، عمل بذاتِ خود اپنے اندر نتیجے سے کہیں زیادہ بڑ ھ کر لطف اور مسرّت رکھتا ہے اور بہت سے دوسرے نتائج و تجربات کے لئے وسیلہ ہوتا ہے ۔
بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شر رِ تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد
( ضربِ کلیم ، نظم ’’ ایجادِ معانی ‘‘ ، صفحہ
۱۱۰ )
جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
( بالِ جبریل ، نظم ’’ شاہین ‘‘ ، صفحہ
۱۴۱)
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزہ ہے اے پسر!
وہ مزہ شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں 
( بالِ جبریل ، نظم ’’ نصیحت‘‘ ، صفحہ
۱۰۲ )
اقبال کے ہاں عمل دو قسم کا ہو تا ہے ۔ 

۴ ۱۔ خودمختارانہ عمل 
۲۔ غلامانہ عمل
اقبال خودمختارانہ عمل کے حامی ہیں ، غلامانہ عمل ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے ۔آپ نے فرمایا 
’’ اسلام نفسیاتِ انسان کی ایک اہم حقیقت کو تسلیم کرتا ہے اور وہ ہے خودمختارانہ فعل کے صادر کرنے کی طاقت کا مدوجزر ۔ اسلام چاہتا ہے کہ انا کی یہ طاقت بغیر کسی قسم کی تخفیف کے برقرار رہے ۔ قرآن کے مطابق صلواۃ بشری انا کو حیات اور اختیار کے سرچشمہ سے قریب تر لے آتی ہے ۔ اوقاتِ صلواۃ کے تعین سے مقصود یہ ہے کہ انا کو ر وز مرہ کے کاروبار کے اور نیند کے میکانکی اثرات سے بچایا جائے ۔اس طرح اسلام نے صلواۃ کو انا کے لئے میکانیت سے اختیار کی طرف بچ نکلنے کا ذریعہ بنا دیا ہے ۔ ‘‘
( خطبات، ص
۱۰۳ ) 
غلام کا عمل کوئی عمل نہیں ہوتا ہے ، آزاد کا عمل ہمیشہ پر تاثیر ہوتا ہے ۔غالب اقوام کے عمل میں طلسم ہوتا ہے ، جس کے تحت محکوم ہمیشہ مدہوش رہتا ہے ۔ اسے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آتی ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہو رہا ہے ؟ جب کبھی محکوم جاگتا ہے ، حاکم اسے ایک نئی گولی دے کر پھر سلا دیتا ہے ۔ 
آ بتاؤں تجھ کو رمزِ آے ۂ اِنَّ ا لملُوک
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادو گری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری
( بانگِ درا ، نظم ’’ خضرِ راہ ‘‘ ، صفحہ
۲۰۰ )
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے نزدیک قوّت کی ضرورت اور اہمیت کیا ہے ؟ اقبال نے اس سوال کا جواب بڑ ی تفصیل سے دیا ہے ۔ مختصر یہ کہ اقبال کے نزدیک ظلم، کفریاباطل کے ساتھ منّت سماجت یا نمازوں ، روزوں سے نہیں نمٹا جا سکتا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ صرف عقائدِ اسلام ، ارکانِ اسلام یا روحانی طاقتوں کے بل 

۵بوتے پر عا لمِ کفر کو شکست سے ہم کنار کیا جا سکتا ہے تو یہ اس کی خوش خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس قسم کے نام نہاد عملِ اسلام کو جس کے ہاتھ میں قوّت نہ ہو، اقبال نے ’’کارِبے بنیاد‘‘ اور ’’برگِ حشیش ‘‘ یعنی بھنگ کے پتے سے تعبیر کیا ہے ۔
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
( بالِ جبریل ، صفحہ
۵۷ ) 
؂ وہ نبوّت ہے مسلماں کے لئے برگِ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوقت کا پیام
( ضربِ کلیم ، نظم ’’ نبوت ‘‘ ، صفحہ
۵۰ )
قوّت کو حاصل کرنا فرد اور قوم دونوں کے لئے انتہائی ناگزیر ہے ، کیونکہ پوری کائنات قوّت کے سامنے سرنگوں ہے ۔ اقبال کے نزدیک قوّت کسی محبوبہ کے حسنِ مجسم کی مانند ہے ، جو محبت کی متقاضی ہے ، اسی لئے اقبال اسے ’’ جمال و زیبائی ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ 
؂ مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سر بسجدہ ہیں قوّ ت کے سامنے افلاک
( ضرب کلیم ، نظم ’’ جلال و جمال ‘‘ ، صفحہ
۱۰۴ )
قوّت انتہائی خطرناک ہتھیار ہے ۔اگر یہ ہتھیار کافروں کے ہاتھ لگ جائے تو اقبال کے لفظوں میں ’’ زہرِ ہلاہل سے بھی بڑ ھ کر‘‘ ہے ، جیسا کہ دورِ حاضر میں ہے اور اگر یہ مسلمان کے پاس ہو تو ’’ہر زہر کا تریاق‘‘ ہے ۔ اپنی نظم ’’ قوّت اور دین ‘‘ میں فرماتے ہیں ۔:۔ 
تاریخِ امم کا یہ پیامِ ازلی ہے 
صاحب نظراں نشۂ قوّت ہے خطرناک
لادیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہل سے بھی بڑ ھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
( ضربِ کلیم، نظم ’’ قوّت اور دین ‘‘ ، صفحہ
۲۷ )
قوّت کا اہلِ حق کے پاس ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ قوّت تخلیقِ کار بھی ہوتی ہے ۔قوّت جو چاہتی ہے بناتی ہے ، قوّت کسی کی مرہونِ منّت نہیں ہوتی ہے ، قوّت کسی کی محتاج نہیں ہوتی ہے ۔یہ خدائی صفت ہوتی ہے جو جب بندۂ مومن میں 

۶پیدا ہو جاتی ہے تو اس کی ایک ٹھوکر سے دریا اور ریگستان دوٹکڑ ے ہو جاتے ہیں اور اس کے جلال سے پہاڑ سمٹ کر رائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔اپنی نظم ’’طارق کی دعا ‘‘ میں فرماتے ہیں :۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے 
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
( بالِ جبریل ، نظم ’’طارق کی دعا ‘‘ ، صفحہ
۸۶ )
قوّت نہ صرف ماحول کی تخلیق کرتی ہے بلکہ باطل کو بھی حق میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اقبال کا خیال ہے ۔۔:۔
صرف طاقتور ہی اپنے ماحول کی تخلیق کر سکتا ہے جبکہ کمزور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ قوّت میں یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ باطل کو چھو لیتی ہے تو
باطل حق میں بدل جاتا ہے ۔ 
( شذراتِ فکرِ اقبال، ص
۱۳۲ )
ہمارے ہاں ایک غلط تصور یہ رواج پا گیا ہے کہ ہم تقدیر کو اٹل سمجھتے ہیں ۔ہمارے خیال میں تقدیر کو بدلا نہیں جا سکتا۔۔۔ جبکہ یہ نظریہ قطعی طور پر غلط ہے ۔بندۂمومن کے پاس وہ قوّت ہوتی ہے جو تقدیر کو بدل دیتی ہے ۔اقبال کے نزدیک دنیا کا سب سے بڑ ا جرم کمزوری ہے ، مردِ مومن اتناطاقتورہوتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر خود بناتا ہے :۔
تقدیر شکن قوّت باقی ہے ابھی اس میں 
ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی
(بالِ جبریل، غزل
۱۵ ، صفحہ ۱۶ )
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے 
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
( بال جبریل ، نظم ’’ ابوا لعلا معرّی ‘‘ ، صفحہ
۱۳۴ )
اقبال کا نظرے ۂ قوّت کثیر ا لجہات ہے ، جن کے ساتھ ایک مختصر مضمون میں انصاف کرنا ناممکن ہے ۔ اقبال کی فکر کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کا نظرے ۂ قوّت مختلف اجزاء پر مشتمل نظر آتا ہے ۔ یہ تمام اجزاء باہم منسلک ہو کر ایک نقطے یعنی قوّت پر مرکوز ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ان اجزاء میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :۔
۷ 
۱۔توحید ۲۔رسالت
۳۔خودی ۴۔ فقر
۵۔یقین ۶۔ عمل
۷۔اتحاد ۸۔ عدل
۹۔ فن ۱۰۔تسخیرِ کائنات
توحید اقبال کے نظرے ۂ قوّت کی بنیاد ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ توحید، قوت کی روشنی کا وہ منبع ہے جہاں سے تمام قویِٰ عالم کی کرنیں پھوٹتی ہیں تو یہ عین حق ہو گا۔ اللہ کو ایک مان کر جو یکسوئی کی قوّت ملتی ہے وہ اور کہیں سے مل ہی نہیں سکتی ہے ۔اپنی نظم ’’ وطنے ّت ‘‘ میں اقبال فرماتے ہیں :۔
بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے 
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے 
( بانگِ درا ، نظم ’’ وطنے ّت ‘‘ ، صفحہ
۱۲۱ ) 
اقبال کے نظریہ قوّت کا دوسرا بڑ ا جزو ہے رسالت یا عشقِ رسول۔یہ قوّت کا وہ مرکز ہے جو جلال و جمال کا حسین مرقّع ہے ۔ رسول ہمارے لئے وہ ہستی ہے جوزندگی کے ہر شعبے میں انسانے ّت کے لئے مینارۂنور کی حیثیت رکھتی ہے ۔
قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے 
دہر میں اسمِ محمدؑ سے اجالا کر دے 
( بانگِ درا ، نظم ’’ جوابِ شکوہ ‘‘ ، صفحہ
۱۵۷ ) 
قوّت کا تیسرا جزو اقبال کے نزدیک خودی ہے ، جس کو انہوں نے قوم کے سامنے تحفے کے طور پر پیش کیا ہے ۔قوّتِ خودی وہ قوّت ہے جو انسان کو اس کے اصل مقام سے آگاہ کر تی ہے ۔اسے پستی کی گہرائیوں سے اٹھا کر افلاک کی رفعتوں سے آشنا کرتی ہے ۔ خودی کے بارے میں مخالفین کی جانب سے کچھ شکوک و شبہات پیدا کئے گئے ہیں ، جن کا جواب اقبال کی طرف سے خود ان کی زبانی سنیے ٔ ، علاّمہ نے اکبر الہ آ بادی کو ایک خط میں لکھا کہ
’’ آ پ مجھے تناقض کا ملزم گردانتے ہیں ، یہ بات درست نہیں ، میں اس خودی کا حامی ہوں جو 
سچی بیخودی سے پیدا ہو تی ہے یعنی جو نتیجہ ہے ہجرت الی ا لحق کرنے کا اور جو باطل کے مقابلے میں پہاڑ 
کی طرح مضبوط ہو تی ہے ۔ مگر ایک اور بیخودی ہے جس کی دو قسمیں ہیں ، ایک وہ جو عاشقانہ شاعری کے 
پڑ ھنے سے پیدا ہو تی ہے ، یہ اس قسم سے ہے جو افیون و شراب کا نتیجہ ہے۔ دوسری وہ بیخودی ہے جو بعض

۸ صوفیاء اسلامیہ اور تمام ہندو جو گیوں کے نزدیک ذاتِ انسانی کو ذات باری میں فنا کر دینے سے پیدا ہوتی
ہے اور یہ فنا ذات باری میں ہے نہ احکام باری میں ۔ پہلی قسم کی بیخودی تو ایک حد تک مفید ہو سکتی ہے مگر دوسری
قسم کی بیخودی تمام مذہب و اخلاق کی جڑ کاٹنے والی ہے ۔میں ان دو قسمو ں کی بیخودی پر معترض ہوں اور بس ، 
حقیقی اسلامی بیخودی میرے نزدیک اپنے ذاتی اور شخصی میلانات و رجحانات و تخے ّلات کو چھوڑ کر اللہ کے احکام 
کا پابند ہو جانا ہے ۔ یہی اسلامی تصوف کے نزدیک فنا ہے البتہ عجمی تصوف فنا کے کچھ اور معنی جانتا ہے ۔‘‘
( اقبال نامہ ، حصہ دوم ، ص
۶۰ )
خودی کی قوّت پر روشنی ڈالنے کے لئے اقبال نے ایک مکمل کتاب ’’ضربِ کلیم ‘‘ کے نام سے لکھی جس کے ٹائٹل پیج پر اقبال نے پیغام بری کا حق ادا کر دیا۔ فرماتے ہیں :۔ 
نہیں مقام کی خوگر طبیعتِ آزاد
ہوائے سیرِ مثالِ نسیم پید ا کر
ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے 
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
(ضربِ کلیم یعنی اعلانِ جنگ ، دورِ حاضر کے خلاف) 
قوّت کا چوتھا جزو فقر ہے ۔ اقبال کے نزدیک قوّت کے حوالے سے فقر دو قسم کا ہے ۔
۱۔عجمی فقر
۲۔اسلامی فقر
اقبال نے اکبر الٰہ آبادی کے نام خط میں لکھا
’’ میں عرض کر چکا ہوں کہ کونسا تصوف میرے نزدیک قابلِ اعتراض ہے ۔ عجمی تصوف سے لٹریچر میں دل فریبی اور حسن و چمک پیدا ہوتا ہے مگر ایسا کہ جو طبائع کو پست کرنے والا ہے ۔ اسلامی تصوف دل میں قوّت پیدا کرتا ہے اور اس قوّت کا اثر لٹریچر پر ہوتا ہے ۔ میرا تو عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کا لٹریچر تمام ممالکِ اسلامیہ میں قابلِ اصلاح ہے ، یاسے ّت انگیز ادب زندہ نہیں رہ سکتا۔قوم کی زندگی کے لئے اس کا اور اس کے لٹریچر کا رجائی ہونا ضروری ہے ۔‘‘
( اقبال نامہ ، حصہ دوم ، ص
۵۵، ۵۶ )

۹توحید، رسالت اور خودی مل کر فرد کے ایمان کو اتنا مضبوط کر دیتے ہیں کہ اب اس کا توکّل نقطہ کمال پر پہنچ جاتا ہے ۔وہ اسباب کا استعمال ضرور کرتا ہے ، لیکن ان پر بھروسہ نہیں کرتا ہے :۔
فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے 
ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلبِ سلیم
( ضربِ کلیم ، نظم ’’ فقر و ملوکیت ‘‘ ، صفحہ
۲۸ )
قوّت کا پانچواں جزو یقین ہے ۔ یقین، اقبال کے نزدیک، قوّت کا اہم مرحلہ ہے ، جس کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے ۔حق پر یقین اس سطح کا ہونا ضروری ہے کہ وہ ایمان کا حصّہ بن جائے ۔
یقیں افراد کا سرماے ۂ تعمیرِ ملت ہے 
یہی قوّت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے 
( بانگِ درا ، نظم ’’ طلوعِ اسلام ‘‘ ، صفحہ
۲۱۱ )
قوّت کا چھٹا جزو عمل ہے ۔ تصوفِ اسلام میں فلسفۂ وحدت ا لوجود نے مسلمانوں میں بے عملی کو مروّج کر دیا تھا ، جس نے قوم میں سستی و بے عملی پیدا کر دی تھی۔’’ اسرارِ خودی ‘‘ کے دیباچے میں اقبال نے اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے :۔ 
’’بنی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں سری کرشن پہلے عظیم انسان ہیں ، جنہوں نے اس فلسفۂ 
بے عملی پر تنقید کی۔سری رامانج بھی انہیں کے راستے پر چلے لیکن سری شنکر کے منطقی طلسم نے اسے پھر الجھا 
دیا اور سری کرشن کی قوم ان کی تجدیدی کوششوں کے ثمر سے محروم ہو گئی۔مغربی ایشیا میں اسلامی تحریک بھی 
ایک نہایت زبردست پیغامِ عمل تھی لیکن جس زاوے ۂ نظر سے سری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی اسی زاویے سے 
شیخ محی ا لدین ابنِ عربی نے قرآنِ شریف کی تفسیر کی ، جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا ۔
او حد ا لدین کرمانی اورفخر ا لدّین عراقی ان کی تعلیم سے نہایت متا ثر ہوئے ا ور رفتہ رفتہ تمام عجمی شعرا اس
رنگ میں رنگین ہو گئے ۔مختصر یہ کہ ہندو حکماء نے مسئلہِ وحدت ا لوجود کے اثبات میں دماغ کو اپنا مخاطب 
کیامگر ایرانی شعراء نے زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا۔ یعنی انہوں نے دل کو اپنا آماجگاہ بنایا اور ان کی 
حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو
ذوقِ عمل سے محروم کر دیا۔سب سے پہلے جرمنی میں انسانی انا کی انفرادی حقیقت پر زور دیا گیا اور رفتہ رفتہ
فلاسفۂ مغرب ، با لخصوص حکمائے انگلستان کے عملی ذوق کی بدولت اس خیالی طلسم کے اثر سے آزاد ہو گئے 

۱۰ پس حکمائے انگلستان کی تحریریں ادبیاتِ عالم میں ایک خاص پایہ رکھتی ہیں اور اس قابل ہیں کہ مشرقی دل و
دماغ ان سے مستفید ہو کر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظر ثانی کریں ۔‘‘
( دیباچہ اسرار خودی ، مشمولہ روزگار فقیر ، حصہ دوم ، ص
۴۴ )
اقبال عمل میں جنون کے قائل ہیں ۔وہ تو محشر میں بھی فارغ بیٹھنے کے قائل نہیں ہیں ۔’’بالِ جبریل‘‘ میں ایک جگہ فرماتے ہیں :۔
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپبا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک
( بالِ جبریل ، صفحہ
۳۴) 
اقبال کے نزدیک قوّت کا ساتواں جزو اتحاد ہے ۔ سے ّد امین الحسینی کی دعوت پر ، اقبال نے موتمر عالم اسلامی کے اجلاس منعقدہ
۶ِ دسمبر ۱۹۳۱ ء میں بر صغیر کے مندوب کی حیثیت سے شرکت کی ۔اس میں انہوں نے ممالکِ عربیہ کے متعلق کہا :۔
’’ میرا ایمان ہے کہ اسلام کا مستقبل اہل عرب کی ذات سے وابستہ ہے اور ان کا مستقبل ان کے باہمی اتحاد پر مو قو ف ہے ، ان کے لئے مقدّر ہو چکا ہے کہ عظیم 
ا لشّا ن طاقت بن جائیں ۔ اسلام کے علاوہ دنیا کی کوئی طا قت اس الحاد اور مادے ّت کا مقابلہ کامیابی سے نہیں کر سکتی ، جو یورپ سے نشر و اشاعت حاصل کر رہا ہے ۔ مجھے اسلام کے خارجی دشمنوں سے کوئی خطرہ نہیں ، میرے خیال میں اگر کوئی خطرہ ہے تو اندرونی دشمنوں سے ہے ‘‘
( گفتار اقبال ، ص
۱۴۴ )
۱قبال کے نزدیک قوّت کا آٹھواں جزو عدل ہے ۔عدل اگر’’لوثِ مراعات سے پاک‘‘ ہو جائے تو وہ قوّت بن جاتا ہے ۔ اپنی نظم ’’ جوابِ شکوہ ‘‘ میں فرماتے ہیں :۔
دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک
عدل اس کا تھا قوی لوثِ مراعات سے پاک
( بانگِ درا ، نظم ’’ جوابِ شکوہ ‘‘ ، صفحہ
۱۵۴ ) 
۱قبال کے نزدیک قوّت کا نواں جزو فن ہے ۔ فن ایسی قوّت ہے جو صحیح طور پر استعمال کی جائے تو یہ معجزہ دکھا سکتی ہے ۔

۱۱ بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں 
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!
( ضربِ کلیمی ، نظم ’’ فنونِ لطیفہ ‘‘ ، صفحہ
۹۹ )
اقبال فن کو سائنس ، فلسفہ اور مذہب پر با لکل انوکھے طریقے سے ترجیح دیتے ہیں ۔ فرماتے ہیں :۔
’’ سائنس ، فلسفہ ، مذہب ، ان سب کی حدیں معے ّن ہیں ، صرف فن ہی لا محدود ہے ۔‘‘ 
( شذراتِ فکرِ اقبال ، ص
۱۷۰ )
۱قبال کے نزدیک قوّت کا دسواں جزو تسخیرِ کائنات ہے ۔زندگی اور موت دونوں اپنے اندر قوّتِ تسخیر رکھتی ہیں ۔
ہے لحد اس قوّتِ آشفتہ کی شیرازہ بند
ڈالتی ہے گردنِ گردوں میں جو اپنی کمند
( بانگِ درا ، نظم ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ ، صفحہ
۱۷۸ ) 
آشکارا ہے یہ اپنی قوّتِ تسخیر سے 
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
( بانگِ درا ، نظم ’’ خضرِ راہ ‘‘ ، صفحہ
۱۹۹ )
اقبال کا نظرے ۂ قوّت ان کے فلسفۂ خودی کی طرح انتہائی جاندار نظریہ ہے ۔ اقبال کے خیال کے 
مطابق مسلمان قوّت حاصل کرنے کی طرف سے غفلت کا مرتکب ہو رہا ہے ۔اس لئے وہ بارگاہِرب العزّت میں دعا کرتے ہیں :۔
دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر 
حریمِ کبریا سے آشنا کر 
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے 
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
( بالِ جبریل ، قطعہ ، صفحہ
۸ )
 

No comments:

Post a Comment